یہ ایک ایسا موضوع ہے جسے کافی لکھا اور اس پر بحث کی گئی ہے مگر اسے صحیح طریقے سے اجاگر نہیں کی گئی اسکی وجہ شائد ہم ہیپوکریپٹس ہیں یا پھر صرف تنقید براے تنقید پر ہی اکتفا کرتے ہیں – حجاب ایک ایسا عمل ہے جو کہ اسلام کی سب سے اولین فرائض عورتوں کے لیے کہا جائے تو بیجا نا ہوگا کیوں کہ یہی ایک عمل ہے جس سے اسلامی عورت یا مسلمہ کو تفریق کرتا ہے دوسرے مذاہیب سے اور یہی عمل ہماری عورتوں کو انکی عزت کرنے کا سبب بنتی ہے – مگر آج کل صرف یہ کتاب، حدیث، قرآن اور بزرگوں کی نصیحتوں میں تو پایا جاتا ہے مگر ہمارے معاشرے سے یکسر غائب ہو چکی ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ
ہمارا میڈیا ، فیشن ، رہن سہن، معاشرہ ، اور ہمارا اقدار سب کچھ بدل چکا ہے اور یہ کہنے میں کباہت نہیں کہ اس میں سارا قصور ہمارے بزرگوں کا اور ہمارا اپنا ہے – مغربی تہذیب و تمدن تو انکے اپنے لیے ہیں مگر اسلامی تمدن اور تہذیب تو خاص طور پر ہمارے نبی آخر زمان حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم نے الله سبحان و تعٰلی کا پیغام اپنے گھر سے شروع کرکے ہمارے لئے مشعل راہ بنائی- اور یہ باتیں تو قرآن اور حدیث میں کئی مقامات پر کافی تفصیل سے بیان کی گئیں ہیں مگر کیا مجال کے ہم نام نہاد مسلمان کہلوانے والے اس پر توجہ دیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کے ہمارے بزرگ اور بڑے اپنی اس کاوش میں فیل ہو چکے ہیں – نا صرف فیل بلکہ یہ تو اس بات سے بلکل کنارہ کش ہو چکے ہیں اور اپنی ذمہ داری کو یکسر بھلا چکے ہیں –
جب بھی فرانس میں حجاب کو کالعدم قرار دینے کی حکومتی سطح پر کوشش کی گئی تب تب پاکستان میں اور دوسرے اسلامی ملکوں میں اس پر کافی بحث بھی چھڑی اور ریلیاں بھی نکالی گئیں مگر لا حاصل وجہ ہماری بحسی اور تقلید مغرب ہے- مجھے وہ دن یاد ہیں جب جمعت اسلامی پاکستان ٹیلی وژن پر دکھائے جانے والے پروگرام تبصرہ کیا کرتے تھے اور اس طرح کی فحاشی کو برا بھلا کہتے تھے اور اسے بند بھی کرا دیا کرتے تھے – یہ بہت ہی اچھا رویہ تھا اور برائیوں سے کفی بچا کرتے تھے- پروگرام لوگ اور پروڈیسرز بھی عام سے معافی مانگا کرتے تھے ہر چیز اپنے ٹھیک اعتدال پر تھی
اب وہ زمانھ ہے جہاں گندگی ایک فیشن اور فحاشی ایک ضرورت بن چکی ہے ہم نا صرف اس سے مہظوظ نظر آتے ہیں بلکھ اسے سب کے ساتھ دیکھنا بھی گوارہ کرتے ہیں اور تو اور اس پر اگر کبھی کوئی بات کی جاتی ہے تو بیکورڈ اور پرانے خیالات سے تشبیح دی جاتی ہے- اب ڈرامھ اس نوعیت کی بنائی جاتی ہے جس میں اگر عزت کو لٹتے ہوئے نادکھائی جائے تو ڈرامھ پاپولر نہیں ہوتا مگر یہ سب کچھ خود ادیب رائٹر کی تو سو سکتی ہے عام کی نہیں-
کیا بات ہے میرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآعلیہ وسلم کی جنہوں نے کیا خوب کہا تھا آخری زمانھ میں ان کی بےعزتی کی جائے گی جو عزت کے قابل ہونگے اور انھیں عزت دی جائے گی جو گندے اور برے ہونگے- آج کل ھم چینل، جیو چینل اور انڈس وژن سے جو کچھ دکھایا جا رھا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بہیں ہے- ہمارے نام نیہاد اینکرز میزبان عورتیں جن کے پاس اب دوپٹھ مئیسر نہیں ہے اپنے جسم کی خدوخال کی اس طرح پزیرآئی کرتی ہیں جسے دیکھنے کے بعد اندازہ ہو جاتا ہے کہ انکا گہرانھ کیسا ہوگا- فرانس میں حجاب کو ممنوعھ قرار دینے پر یہی خواتین پروگرام بھی کرتی ہیں اور اسے کنڈیمنڈ کرنے کے لئے ریلیاں بھی نکالتی ہیں اور ہمارے یہی چینلز واویلھ بھی مچاتے ہیں – ایک مشہور کہاوت ہے دوسروں کو نصیحت اور خود کو فضیحت-
ہماری عورتیں صرف اس بات پر روتی نظر آتی ہیں ہمیں حقوق دی جائے جو کھ اسلام میں ہے- ہمیں عزت دی جائے ہمیں صیحیح مقام دیا جائے جو اسلام میں جائز حقوق کا کہا گیا ہے تو میرا سوال ہے ان عورتوں سے کیا اسلام میں اپنے جسم کو دکھانا ہی حقوق ہے؟ کیا فحاشی کو اسلامی قانون عورتوں کو اجازت دیتی ہے؟ نہیں ناممکن سی بات ہے- اگر فرانس ادھر پابندی لگاتا ہے حجاب کرنے سے تو وہ صرف نقاب کو کہتا ہے ادھر تو آپ دوپٹھ کو اتار پھینک چکی ہیں کونسا اسلام اور مذہبی رواداری آپ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے-
ہم بحس اور موقع پرست بن چکے ہیں- جب تک ہمارا معاشرہ ان فضولیات سے آری تھا ہماری زندگی اور ہمارا معاشرہ سکون میں تھا آج یہی معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہے- نوجوان طبقھ عجیب شش و پنج کا شکار ہے- جنہیں عزت و وقار دینا چاہئے آج وہ ذہنی قرب میں مبتلا ہیں- اب وہ وقت آچکا ہے جب ہماری عورتوں کو اپنے طور طریقے بدلنے ہونگے- یورپ اور امریکھ بلکھ مغربی دنیا میں تو خواتین اسلام قبول کرنے کے بعد اسلامی طور طریقھ اپنا لیتی ہیں مگر ہماری خوتین یکسر اسے بھلا چکی ہیں-
اب بھی وقت نہیں گزرا اب بھی وہی روائت ہم دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں اگر ہم چاہیں تو- کیونکھ اللہ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جسے خود کو بدلنے کی آرزو اور جستجو نا ہو- آج یہ سب کچھ ہماری غفلت اور دوسروں کی تقلید کا نتیجھ ہے- کیونکھ فرد سے معاشرہ بنتا ہے معاشرہ سے فرد نہیں جنم لیتا اگر آج ہم عہد کرلیں تو مجھے ایمان کامل ہے کے ہم پھر وہی مسلم ہونگے جو کے ڈاکٹرعلامھ محمد اقبال نے اپنے شعر کے ذرئے ہمیں بتانے کی کوشش کی
سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
تم سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افضان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاو کھ مسلمان بھی ہو
زباں سے کھ بھی دیا لا الہ اللہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایمان کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نا سکا
منفیات ایک ہے اس قم کی نقسان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات ہی ہوتی جو مسلمان بھی ایک
یہی وہ چند اشعار ہیں جو اس وقت بھی علامھ اقبال نے محسوس کیا آج وہی بات میں بھی محسوس کر رہا ہوں شائد کے معاشرہ کے کچھ لوگ بھی – شائد یہ پڑھنے کے بعد کچھ معاشرہ میں تبدیلی آ جائے کاش ہر کوئ اپنی جگہ کچھ اسی طرح کرنے کی سوچ رکھے نہیں بلکھ اسے دوسروں تک پہنچائے تا کھ ہم پھر وہی قوم بن جائیں جو عہدوپیما ہم نے اللہ اور اس کے نبی سے کیا تھا- کاش یہ الفاظ اس یہیں تک محدود نا ہو اور پھیلے تا کے معشرہ کا ہر فرد اپنے گریبان جھانک لے اور اپنے آپ کو سدھارنے کی جستجو کرے کیونکھ ایک فرد سے ہی معشرہ بنتا ہے اللہ ہمارا حفظ و ناصر رہے ہمیں اپنی صحیح پہچان کرائے آمین
کیا یہ ہمارا معشرہ تھا؟ یا کسی کی تقلید؟ فیصلا آپ کے ھاتھ میں ہے
http://www.youtube.com/watch?v=JliiNYmaDVg
http://www.youtube.com/watch?v=NyrTEJw1XCk
یہ اس سے بھی بڑھ کر ہمارے اوپر ایک تماچے کی مانند پڑا جب پاکستان کے اپنے چینل پر دکھایا گیا سمجھ نہیں آتی ہمارا سنسر بورڈ زندہ بھی ہے یا نہیں اور ہمارے نام نیہاد پڑھا لکھا طبقھ اور ادیب زندہ ہیں یا یہ رنگینیاں انہیں بھی مکمل طور پر نگل چکی ہیں
http://www.youtube.com/watch?v=QFshn2FpLb8
Direct short and share link for this page: https://www.dotcrush.com/?p=788
- Women Fashion – The most popular choices is the Prom Dress - December 24, 2022
- New Collections of Stylish and Colorful Printed Dresses - June 17, 2022
- 12 Steals from The Outnets New Beauty Offerings - October 27, 2015
No Comments Yet