ہم زندہ قوم ہیں  پائندہ قوم ہیں

ہم سب کی ہے پہچان ہم سب کا پاکستان

پاکستان پاکستان پاکستان

ہم سب کا پاکستان

 

یہ وہ ملی نغمہ ہے جس کے الفاظ اور معنی کہیں ماضی کے کسی گوشے میں کھو چکے ہیں . یہ وہ نغمہ ہے جسے ہم اب صرف اور صرف آزادی پاکستان کے دیں صرف

سنتے اور گا تے ہیں مگر اس کے معنی اور وجہ کو آج تک اپنی زندگی میں نہیں ڈھال پا تے اور شائد کوشش بھی نہیں کرتے اور نہ ہی ہمارے دانشور اسکے لئیے کچھ کر -سکنے کے قابل ہیں –

ایک وہ دیں تھا جب پاکستان میں زلزلہ آیا اور جب پھر اسی نغمے کی روح کو زندہ ہوتے ہوۓ دیکھا نہ صرف عوام میں بلکہ میڈیا پر ، ہماری حکومت کے مختلف اداروں میں اور ہمارے سیاست دانوں میں. پھر سیلاب آیا وہی کیفیت وہی جوش و خروش کی پھر رونمائی ہوئی –
اور اب اس ای سی سی وورلڈ کپ کرککٹ میں دیکھنے میں آیا- ملکی حالات اور جوش و خروش بتانے لگ گئے کہ ہم زندہ قوم ہیں اور پائندہ قوم ہیں . حکومتی سطح پر – سیاسی – میڈیا بلکہ عوام الناس میں بھی کوٹ کوٹ کر نظر آیا . اس وقت نا ہی ہم پٹھان ، پنجابی ، سندھی ، بلوچی اور مہاجر تھے صرف ایک زبان ایک مقصد اور ایک قوم بن کر ابھر کر آئے

نا ہی کوئی دنگا نا ہی کوئی فساد، نا ٹارگٹ کلنگ ، نا ہی کوئی سیاسی اکھاڑا اور مڈبھیڑ – ہر ایک کے چہرے پر ایک انجانی خوشی اور عزم و مقصد کے سوا کچھ بھی نہ تھا .
آخر وجہ کیا تھی ؟ وہ محرکات کیا تھے ؟
اس بارے مے کہتے سب ہیں مگر اسے نہ ہی اجاگر کرتے ہیں اور نہ ہی کوشش – آپ مانے یا نہ مانے اسکی وجہ ہے ایک عظیم مشن اور صرف اور صرف ایک ہی نقطہ نظر اور منشور ” اس وورلڈ کپ میں انڈیا کو ہر حال میں ہرانا ہے اور اسکی سر زمین پر پاکستان کا پرچم لہرانا اور قومی ترانہ بجوانا ”
اس بات سے ظاہر ہوگیا کہ صرف اور صرف واضح منشور اور ایک مقصد ہی اس قوم کو متحد اور جگا سکتی ہے-

 

یہ منشور ہمارے سیاسی پارٹیوں میں بھی ہے مگر منشور کی حد تک ہی ہے – انکی زبان اور بیان تک تو یہ مقاصد سننے کو ملتے ہیں مگر جب انکو پایہ تکمیل کیلئے عوام متخب کرتی ہے تو انکا منشور ایک دوسرا ہوتا ہے اور یہ منشور تمام سیاسی جماعتوں کا مقصد اور جنون ہوتا ہے کہ کیسے اپنی جیبیں اور بنک بیلنس میں اضافہ کریں وہ کون سے پروجیکٹس ہیں جنکے شروع کرنے سے ہمیں اور صرف ہمیں فائدہ ہو . اور مزے کی بات اس پر ہمارے تمام سیاسی جماعت متففق اور متحد ہیں اور وہی جماعت میں گھسے چند خاندان کے لوگ جو کہ وڈیرے اور  جاگیردار ہیں – چاہے کوئی بھی جماعت آئے فائدہ انہی چند خاندان کو ہی پہنچتا  ہے اور ہر ایک پارٹی میں خاندان کا کوئی نا کوئی فرد ضرور ہوتا ہے اور وزیر بھی .

 

ہماری قوم نہ صرف ان پڑھ اور جاہل ہے بلکہ اب تو ہمارے نو جوان بھی ویسے ہی ہوتے جا رہے ہیں – انہیں شیلا کی جوانی اور  کیوں منی بدنام ہوئی تو نظر آتی ہے – اس پر باتیں اسے سننا ، گا نا ، بجانا تو اچھا لگتا ہے اور اس کے لیے وقت بھی بہت ہے مگر ملک حالت کو سدھارنے کے لیے کوشش کرنا اسے سوچنا بھی گوارا نہیں- بہت سے نوجوان ایسے بھی پائے گئے ہیں جو کہ پاکستان کو بدنام کرنے کی ناکام کوششیں اس انٹرنیٹ ، فیس بک ، بلوگس کے ضریعے پاکستان کو گندہ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور موقع ملا تو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان سے بڑھ کر محب وطن پاکستانی ہے – جیسا کے وقار زکاہ اور اس جیسے کافی سارے اور – ایسے لوگ صرف یہی چیختے رہتے ہیں کے پاکستان نے ان کو کیا دیا شائد وہ نہیں جانتے کے اگر وہ جسے چاہتے ہیں انڈیا اگر وہ فٹ پاتھ پر پیدا ہو جاتے تو کسی گندی نالی کے کیڑے کی حیثیت رکھتے جو کہ انکا اب زہن ہے –
آخر ایسا کیوں ؟ یہ کیا ہے؟  کیوں ہے؟  اور کیسے درست ہوگا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ایک کہ زہن میں تو آ تا ہے مگر جواب نہیں ملتا – جہاں تک میرا تجربہ ہے میں بھی اسی معاشرہ کا حصّہ ہوں، میں بھی اسی سیسٹم میں پلا بڑھا ہوں اور میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہمارا تدریسی نظام ہی غلط ہے – استاد ایک ایسا رتبہ جسے ہم تنقید کا نشانہ نہیں بنا سکتے مگر بنیادی وجہ ہی ہماری یہی ہے – جو پروفیشنل لائف میں فیل ہوتے ہیں وہی لوگ ٹیچنگ کے سب سے معتبر اور سب سے اہم کام کے لیے مخصوس کردئیے جاتے ہیں سارے ایسے نہیں ہوتے مگر زیادہ تر یہی ہوتے ہیں – ناکام لوگ اب آپ خود اندازہ کر لیں کے پھر یہ کیا کسی نو جوان کو ایک پرجوش اور کار آمد تیار کرینگے جنکے ہاتھوں میں آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سمبھا لنی ہے

ہمیں اب سوچنا ہوگا ہر ایک کو سوچنا ہوگا – نوجوان ہی نہیں اب ماؤں کو بھی سوچنا ہوگا، اساتذہ کو بھی ، دانشور کو بھی ، سیساسی جماعتوں کو بھی – ہر ایک کو اپنے اپنے مقام پر بہت کچھ کرنا ہے ہے –  اب ہم سب کا یہ کام ہے کیوں کہ ہمارے ارباب و اختیار اپنے نہاد اپر کے گئے ظلم کا حساب لینے کے لیے گڑھے مردے اکھیڑ سکتی ہے اس پر بیٹھ کر اپنا وقت اور پاکستان کا وقار اور پیسہ بلا وجہ لٹا سکتی ہے مگر ایسے اکد ام نہیں کرسکتی جس سے نو جوانوں میں شعور اجاگر ہو –
اب نا ہی قائد اعظم محمد علی جناح ہیں اور نا ہی انکے تحریکی ساتھی اور اب ہماری وہ مائیں بھی نہیں ہیں جو ایسے لیڈر پیدا کریں کیوں کے اب ہماری عورتیں، مائیں اور بیٹیاں انکا روز مرّہ کا کام انڈیا کے ڈرامے ، فلمیں، گانے سننے اور دیکھنے میں گزرتا ہے – اور تو اور اب ہمارے اپنے چننلز بھی ایسے واہیات ڈرامے دکھاتے ہیں جنھیں گھر میں فیملی کے ساتھ نہیں دیکھا جاسکتا- تو ایسے میں ہماری ماؤں کا زہن کیا ہوگا اور وہ کیا سوچ ہوگی کہ وہ ایسے لیڈر پیدا کر سکیں ؟ کبھی نہیں کبھی بھی نہیں ؟ پھر ایسےہی نوجوان پیدا ہوتے ہیں جنھیں شیلا کی جوانی اور منی کی بدنامی ہی اچھی لگتی ہے

 

میرے خیال میں ہماری جڑیں کھوکھلی کردی گئیں ہیں – فحاشی سے- ہم جسے ترقی سمجھتے ہیں – جسے آج کے دور کی ضرورت سمجھتے ہیں وہی پاکستان کے ہرے برےدرخت کی جڑھوں کو کھو کھلا کرتی جا رہی ہیں – اب ہمیں ہر مقام پر سوچنا ہوگا کچھ کرنا ہوگا – ابھی بھی دیر نہیں ہوئی – ہم جب کرککٹ کے لیے یکجان اور یکذبان ہو سکتے ہیں تو پھر اس ملک کو بچانے کے لیے کیوں نہیں؟ اب سب کو سوچنا ہوگا کرنا ہوگا ، ہمارے سیاسی پارٹیوں کو بھی ، لیڈر کو بھی ، استاد کو بھی ، ماؤں کو بھی، دانشور کو بھی، نو جوان کو بھی ہر جگا ہر ایک کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا دیکھنا ہوگا کہ کیا غلط اور کیا صحیح ہے – ورنہ یہ چیز ہمیں مکمل کھوکھلا کردیگی اور ایک دن ہمیں کوئی بھی تر نوالہ بنا سکتا ہے –

آئیے آج پھر ہم وہی عہد کریں جو کے قائد اعظم محمد علی جناح سے ہمارے آباءواجداد سے کی تھیں – متحد – ایمان – یقین محکم اسی کے ضرئیے ہم وہی وقار اور عزت حاصل کر سکتے ہیں جسکا خواب اور تعبیر کے لیے ہمارے پرخوں نے اپنی جان کا نذرانہ دیا – میری دعا ہے کہ الله وہ دن لیے جب ہم صرف اور صرف پاکستانی ہوں صرف پاکستانی –

الله ہماری مدد فرمائے اور ہمیں اپنے اندر سدھار پیدا کرنے کی خواہش پیدا کرے اور ہمارے لیڈر کے سوچ کو بھی بدل دے آمین

پاکستان زندہ آباد Pakistan Zindabaad

 

Direct short and share link for this page:  https://www.dotcrush.com/?p=766

sham
Latest posts by sham (see all)

About The Author