lies, deception or Topian ( ٹوپیاں – جھوٹ ۔ دھوکے بازی )

آج کل یہ اس قدر عام ہے کہ جیسے یہ وقت کی بہت اہم ضرورت ہو اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں سمجھی جاتی شائد یہ ہی وقت ہے جس کا ذکر کتابوں اور بزرگوں کی نصیحتوں میں ملا کرتا ہے۔

آج کی نئی نسل کو کیا کہئیے زباں پر صرف یہ ٹوپیاں ہی نہیں بلکہ گالیاں تک عام ہے۔ اگر کوئی اچھی بات بھی کہنا ہو تو گالیوں سے شروعات ہوتی ہے ۔ اس بات کو دوسرا سمجھنے کے بجائے بلکہ اس بات پر تکرار شروع ہو جاتی ہے گالم گلوچ نہیں۔

 یہ وہ مصینت ہے جسے ہر کوئی روزانہ اپنی زندگی میں محسوس بھی کرتا ہے اور واسطہ بھی پڑتا ہے بلکل اسی طرح کا واقعہ میری زندگی میں بھی رونما ہوا۔ جہان تک حتم المکان کوشش ہوتی ہے میری کے میں سب کے لئے کچھ اچھا پیغام دوں کسی کی زندگی کو بہتر اور اچھی کرنے کے لئے اپنے تجربے کی بنیاد پر نصیحت کر سکوں مگر اپنی ہی برائی گالم گلوچ کے نزدیک نا صرف اپنی بات کا وزن کھو دیتا ہوں بلکہ اصل بات ہی اور مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ ایسا کیونکر ہے؟ ہم ایک طرف تو اچھائی کا پرچار کرتے ہیں اور دوسری طرف خود وہی برائی میں جکڑے ہوتے ہیں ۔

آج پھر وہی دورہ پڑا ، ایک جھوٹ کو جھوٹ منوانے کیلئیے بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی، کے جو عادتاََ گالی دی گئی جو نا کسی کو دی گئی اور نا ایسا کچھ زہن کے کسی گوشے میں تھا کے اس پر یا اس کے خاندان کو لا مہالہ اس گندی حرکت میں شامل کیا مگر جو بات اچھائی کیلئے بتائی جا رہی تھی وہ فوت ہو  گئی اور بات بڑہتی چلی گئی۔ جس مقصد کیلئیے بات شروع کی گئی کے جھوٹ نہیں بولنا چاہئے تھا یہ برائی ہے اور ناسور ہے ہمارے معاشرے کیلیئے مگر اس کا اختتام ایسا ہوگا یہ اندازہ نہیں تھا۔ مگر کوئی میری بات کو نا سمجھ سکے اور اسکی گہرائی کو نا پہنچ سکے مگر اس بات کا مجھے ضرور اندازہ ہو گیاکہ غلطی جھوٹ بولنا نہیں غلطی گالیاں دینا ہے جو کے ہماری زبان پر بلکل اسی طرح رائج ہے جیسے جھوٹ بولنا اور اسے معمولی ٹوپی کہکر اپنے دل کو تسلیّ دیتے ہیں اور احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔

آج کسی کو اچھی بات یا عادت سکھاتے ہوئے خود کی ایک بہت بڑی برائی سامنے آگئی۔ میں ابھی تک اسی سکتے میں ہوں کے اپنی برائی کی عادتوں کو ختم سمجھ رہا تھا آج مجھے اندازہ ہو گیا کے آخر دوسرے جب برائی کرتے ہیں تو وہ ہمیں باقائدہ نظر بھی آتا ہے اور اسے دوسروں کی کمزوری سمجھ کر اسےشرمندہ بھی کرتے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جسکی وجہ سے آج ہمارا معاشرہ  نا صرف بےراہ روی کا شکار ہیں بلکہ کوئی اسے چھوڑنا بھی گریز نہیں کرتا۔ میں اپنی سب سے بڑی کمزوری اور برائی سے واقف ہوگیا اور اللہ سے اسکی معافی مانگ لی اور امید اس باری تعالیٰ سے یہی ہے کے وہ ہر ایک کو بخشنے والا اور راہ نجات دکھانے والا ہے۔

لیکن مسلہْ ابھی تک وہیں ہے کیا جھوٹ کو کوئی اور نام دیکر ہم اس اتنی بڑی برائی سے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے، ہم حقیقت سے منھ موڑ سکتے ہیں کتئ ممکن نہیں ۔ ہم اپنی جب تک چھوٹی چھوٹی عادتوں کو برائی نا سمجھتے ہوئے اسے کرنے کے سو بہانے تلاش کریں گے تو نا ہی ہمارے کردار میں کوئی تبدیلی آئے گی اور نا ہی ہمارا معاشرہ پھر سے اسی طرح چمک دمک ایک اجالے کی مانند ہوگی۔

یہ جھوٹ بلکہ عرف عام میں ٹوپی [ شغل میلہ ] نا سرف زہنی گراوٹ کا باعث بنتی ہے بلکہ یہی اکدام ایک دن اسے بہت بڑے مشکل میں لا کھڑا کرسکتی ہے ایک بار معاشرے میں جھوٹا، ٹوپی باز یا دھوکے باز مشہور ہوجائے تو سولی پر بھی کھڑے ہونے کے باوجود کوئی بھی اسکی بات کو سچ سمجھنے سے قاصر رہے گا۔ 
 
آئیے عہد کریں نا صرف دوسروں کو برائی سے روکنے کا سدباب کریں بلکہ پہلے اپنی گریبان کو ایک بار ضرور جھانک لیں۔ اور پہلے اپنی اصلاح کریں بعد میں دوسروں کی۔ کہیں ایسا نا ہو جو آج میرے ساتھ ہوا۔ ایک بہتر انسان ہونے کے لیئے پہلے اپنے آپ کو سدھاریں پھر کسی اور کی طرف توجہ دیں۔

اللہ ہم سب کی مغفرت فرمائے اور ہمیں اچھی اور بری بات سمجھنے کا وہ ذہن عطا کرے جس سے اپنی خود کی شخصیت کو ایک اچھے کردار میں ڈھال سکے۔ بانسبت کسی اور کو ڈائریکٹ سمجھانے کے، وہ خود آپکی اچھائی کو دیکھتے ہوئے اسے اپنانے کی کوشش کرےگا۔
آمین

خورشید عالم
کراچی
پاکستان زندہ آباد

 

 

  Direct short and share link for this page: https://www.dotcrush.com/?p=1332

UBlogger

About The Author